Pages

Sunday, July 21, 2013

چہرے پڑھتا، آنکھيں لکھتا رہتا ہوں


چہرے پڑھتا، آنکھيں لکھتا رہتا ہوں

ميں بھي کيسي باتيں لکھتا رہتا ہوں؟

سارے جسم درختوں جيسے لگتے ہيں

اور بانہوں کو شاخيں لکھتا رہتا ہوں

مجھ کو خط لکھنے کے تيور بھول گۓ

آڑي ترچھي سطريں لکھتا رہتا ہوں

تيرے ہجر ميں اور مجھے کيا کرنا ہے؟

تيرے نام کتابيں لکھتا رہتا ہوں

تيري زلف کے ساۓ دھيان ميں رہتے ہيں

ميں صبحوں کو شاميں لکھتا رہتا ہوں

اپنے پيار کي پھول مہکتي راہوں ميں

لوگوں کي ديواريں لکھتا رہتا ہوں

تجھ سے مل کر سارے دکھ دہراؤں گا

ہجر کي ساري باتيں لکھتا رہتا ہوں

سوکھے پھول، کتابيں، زخم جدائی کے

تيري سب سوغاتيں لکھتا رہتا ہوں

اس کي بھيگي پلکيں ہستي رہتي ہيں

محسن جب تک غزليں لکھتا رہتا ہوں.

No comments:

Post a Comment