Pages

Monday, December 23, 2013

suno december !

meri sari baty hi rad karty ho ..

suno december !
had karty ho ..

Sunday, December 15, 2013

Saas Lena Hua Muhal Mujhe

Saas Lena Hua Muhal Mujhe
Es Mohabbat Se Ab Nikal Mujhe

Ab Ab Me Teri He Zimedari Hun
Kho Na Jao Kahein Sambhal Mujhe

Ab Behelta Nai Me Lafzon Se
Ab Na Dena Koe Misal Mujhe

Sab Ke Bare Me Sochta Hun Magr
Khud Ka Rehta Nai Khayal Mujhe

Jate Jate Wo Kis Leye Palta
Ab Sataye Ga Ye Sawal Mujhe

Saaf Keh De Jo Tere Dil Me He
En Bahanon Se Ab Na Taal Mujhe

دسمبر مجھے تجھ سے کوئی شکایت نہیں ہے


دسمبر مجھے تجھ سے کوئی شکایت نہیں ہے 

نہ کوئی گلہ ہے
کہ تو نے مجھے بے سبب سی اُداسی کا تحفہ دیا ہے
نہ مجھ کو تری سرد راتوں کی تنہائیوں میں 
کسی اپنے غم کو جلا کر اُسے تاپنا ہے 
نہ تجھ سے کوئی بات کہنی ہے مجھ کو 
دسمبر!
حقیقت یہی ہے کہ میں تیرے آنے سے ہہلے بھی ایسا ہی تھا
نارسائی کے غم میں سلگتا، اداسی کی چادر میں لپٹا
اور اپنے ہی اندر کی ویرانیوں پر کبھی شعر کہتا
کبھی نظم لکھتا 
دسمبر!
حقیقیت یہی ہے ترے بعد بھی میرے معمول میں کوئی تبدیلی آئے
یہ ممکن نہیں
سالہا سال سے میں اسی دائرے میں سفر کر رہا ہوں
ترا دوش کوئی نہیں ہے دسمبر!
مجھے تجھ سے کوئی شکایت نہیں ہے 

(5 دسمبر 2013)

تم سے ملنے کا وعدہ تھا

تم سے ملنے کا وعدہ تھا

دل کرتا تھا!
جیسے مجھ کو تڑپاتی ہو
ویسے ہی تم کو تڑپاؤں 
تم سے آج نہ ملنے جاؤں
لیکن آج بھی دیکھو جاناں
میری محبت میری ضد سے جیت گئی ہے
Aatif Saeed !

جانِ جاں! کچھ کہو!

جانِ جاں!

کچھ کہو!
خامشی کی زباں سنتے سنتے مرے کان تھکنے لگے
جانتا ہو محبت میں اظہار کب
کھوکھلے حرف و معنی کا محتاج ہے
مانتا ہوں محبت وہ احساس ہے
جس میں خاموشیاں بات کرنے لگیں
روح سننے لگے دھڑکنوں کی زباں
پھر بھی اب جانِ جاں!
خامشی کی زباں سنتے سنتے مرے کان تھکنے لگے
Aatif Saeed !

yaad hai jana tum kehti thi ?


ﺁﺝ ﺑﻌﺪ ﻣﺪﺕ ﮐﮯ

ﺁﺝ ﺑﻌﺪ ﻣﺪﺕ ﮐﮯ

ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﮬﮯ
ﻭﮦ ﺫﺭﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺪﻟﯽ
ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺍﭘﻨﯽ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﺳﻮ ﺳﻮﺍﻝ ﺭﮐﮭﺘﯽ ﮬﮯ
ﭼﮭﻮﭨﯽ ﭼﮭﻮﭨﯽ ﺑﺎﺗﻮﮞ ﭘﮧ
ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﮐﮭﻞ ﮐﮯ ﮨﻨﺴﺘﯽ ﮬﮯ
ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺍُﺱ ﮐﮯ ﻟﮩﺠﮯ ﻣﯿﮟ
ﻭﮬﯽ ﮐﮭﻨﮑﮭﻨﺎﮨﭧ ﮬﮯ
ﻭﮦ ﺫﺭﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺪﻟﯽ
ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﭘﻠﮑﻮﮞ ﮐﮯ
ﺳﺎﺋﮯ ﮔﯿﻠﮯ ﺭﮬﺘﮯ ﮬﯿﮟ
ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﺳﻮﭼﻮﮞ ﻣﯿﮟ
ﻣﯿﺮﺍ ﻧﺎﻡ ﺭﮬﺘﺎ ﮬﮯ
ﺍﺏ ﺑﮭﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﺧﺎﻃﺮ ﻭﮦ
ﺍُﺱ ﻃﺮﺡ ﮬﯽ ﭘﺎﮔﻞ ﮬﮯ
ﻭﮦ ﺫﺭﺍ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺪﻟﯽ
ﺁﺝ ﺑﻌﺪ ﻣﺪﺕ ﮐﮯ
ﻣﯿﮟ ﻧﮯ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﺩﯾﮑﮭﺎ ﺗﻮ
ﻣﺠﮭﮯ ﺑﮭﯽ ﻟﮕﺘﺎ ﮬﮯ
ﻣﯿﮟ ﺑﮭﯽ ﺍُﺱ ﮐﯽ ﭼﺎﮬﺖ ﻣﯿﮟ
ﺍُﺱ ﻃﺮﺡ ﮬﯽ ﭘﺎﮔﻞ ﮬﻮﮞ
ﺑﻌﺪ ﺍﺗﻨﯽ ﻣﺪﺕ ﮐﮯ
ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺪﻻ
ﺟُﺰ ﮨﻤﺎﺭﮮ ﺭﺳﺘﻮﮞ ﮐﮯ
ﺍﻭﺭ ﮐﭽﮫ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﺪﻻ

December mujhe tujh se koi shikayat nahi hai ..


خواب ہی خواب آنکھوں کی دہلیز پر رقص کرتے رہے

خواب ہی خواب آنکھوں کی دہلیز پر رقص کرتے رہے

سوچ کے کتنے ریشم بنے تب کہیں ایک مصرعہ ہوا

زمیں تھی میری مگر آسمان اس کا تھا

زمیں تھی میری مگر آسمان اس کا تھا
 ۔۔۔ اسی لیے مجھے خود پر گمان اس کا تھا

وہ جس کے واسطے لڑتا رہا تھا میں سب سے
 ۔۔۔ مرے خلاف ہی ہر یک بیان اس کا تھا

میں اب جو دھوپ میں جلتا ہوں اسی کا ہے کرم
 ۔۔۔ میں جس کی چھاوں میں تھا سائبان اس کا تھا

بھول جاؤں یا خود کُشی کر لوں ۔۔۔ تم ذرا سوچنے کی مہلت دو.

بھول جاؤں یا خود کُشی کر لوں ۔۔۔ تم ذرا سوچنے کی مہلت دو


یہ کہا تھا کہ میرے ساتھ رہو ۔۔۔ کب کہا تھا کہ تم محبت دو

Wo Shakhs Mujh Ko Jeet Ke Hara He Aur Bas



Wo Shakhs Mujh Ko Jeet Ke Hara He Aur Bas

Etna He Zindagi Ka Khasara He Aur Bas

Kese Kahon Ke Us Ka Erada Badal Gaya

Sach To Yehi He Us Ne Pukara He Aur Bas . . . "bas"

Duniya Ko Is Me Dard Ki Shiddat Kahan Mile

Aankhon Se Tut-ta Taara He Aur Bas . . . "aye haye haye"

Lafzon Me Dard Hijar Ko Mehsus Kar Ke Dekh

Kehne Ko Mene Waqt Guzara He Aur Bas

Ab In Me Koe Khwab Sajane Nai Mujhe

Aankhon Ko Entizar Tumhara He Aur Bas . . . "AYE HAYE"

Mene Kaha Ke Khwab Me Dekhi Hain Barishein

Us Ne Kaha Ke Ek Eshara He Aur Bas 

میں خواب بہت دیکھتا ہوں .



میری ایک نثری نظم 


میں خواب بہت دیکھتا ہوں
ایسے خواب
جن میں کوئی دکھ، کوئی پریشانی نہیں ہوتی
جن میں وصل کے رستے، ہجر کی وادی سے ہو کر نہیں گزرتے
جن میں محبت ہمیشہ ادھ کھلے پھول کی طرح خوبصورت
اور بچے کی مسکان کی طرح پاکیزہ ہوتی ہے
ایسے خواب
جہاں ایک مسکراہٹ کی قیمت ہزار آنسو نہیں ہوتے
میری پلکوں کی شاخوں پر کئی ایسے خواب بیٹھے رہتے ہیں
اُن کی گنگناہٹ مجھے جینے پہ اکساتی ہے
نئے راستوں کی اور لے کر چلتی ہے
نئی منزلوں کا پتا بتاتی ہے
مجھے اپنے خوابوں سے محبت ہے
اُن خوابوں میں رہنے والے ایک ایک شخص سے محبت ہے
اُن خوابوں میں دِکھنے والی ایک ایک شئے سے محبت ہے
کہ یہ سب میرا ہے، صرف میرا
میرے خواب، میرے علاوہ کوئی نہیں دیکھ سکتا
جب تک کہ میں نہ انہیں دکھانا چاہوں
کوئی انہیں میری آنکھوں سے چرا نہیں سکتا
جب تک کہ میں خود نہ کسی کی آنکھوں میں سجا دوں
میرے خوابو
آج میں یہ اقرار کرتا ہوں
کہ میں تم میں زندہ ہوں
یہ سچ ہے کہ مجھے اِن آنسوؤں سے ڈر نہیں لگتا
مگر پھر بھی میں شاید اِس لئے رونے سے ڈرتا ہوں
کہ اِن آنکھوں میں تم رہتے ہو
تمہارا ہونا میرا ہونا ہے
اور میں تمہیں کھونے سے ڈرتا ہوں