Pages

Thursday, July 25, 2013

سنو زندگی!

سنو زندگی!

ہاتھ تھامو مرا

مجھ کو اس راہ ِ پرخار سے دور تم لے چلو


اس جگہ کہ جہاں چند لمحے سہی
جی سکوں

کہ یہاں یاد کے ساتے گہرے ہیں اتنے 

کہ کچھ بھی سجھائی، دکھائی نہیں دے رہا ہے مجھے

ہر قدم پر گئے وقت کے تذکرے

جن سے ٹکرا کے میں گرچہ گرتا نہیں

لڑکھڑاتا تو ہوں

اور یہ لڑکھڑاہٹ اذیت بھری ایک سچائی ہے

جس میں گرنے سنبھلنے کی اس مختصر جنگ میں

جیت جاتا ہوں میں

ہار جاتا ہے دل

No comments:

Post a Comment