Pages

Friday, July 5, 2013

ہاتھ سے ہاتھ چھڑانے لگے ہو



ہاتھ سے ہاتھ چھڑانے لگے ہو

مجھ کو پتھر کا بنانے لگے ہو

ذرا ٹہھرو میں یقیں تو کر لوں
تم مجھے چھوڑ کے جانے لگے ہو


ایسے پل بھر میں بدل جاتے ہو
تم تو بالکل ہی زمانے لگے ہو

اوڑھ لی ہے جو تم نے خاموشی
کیا مرا ہجر منانے لگے ہو

کیا نیا زخم مجھ کو دینا ہے
یہ جو تم آس دلانے لگے ہو

پھر یقیں کر رہے ہو وعدے پر
پھر کوئی درد کمانے لگے ہو

عشق تو بے قرار رکھتا ہے

کیا نئی بات بتانے لگے ہو
 

No comments:

Post a Comment